ذرائع ابلاغ کی یہ ہولناک تشریحات تقریباً ہمارے اپنےگھروں میں ہونے والے واقعات ہی کے عکاس ہوتے ہیں۔ تناؤ کے ماہرین کہتے ہیں کہ ازدواجی ناچاقیاں مندرجہ ذیل شخصیت کے حامل لوگوں میں واقع ہوتی ہیں
جب کبھی غصے سے پیدا شدہ تناؤ سے آزادی کی ضرورت پڑتی ہے تو اکثر لوگ کوئی فوری حل چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید زندگی کی الجھنوں کے مداوے کیلئے ایک سرور انگیز سگریٹ بوجھل اور تکلیف دہ ادویات سے زیادہ ترغیبی ہوسکتا ہے۔ غصہ ایک مکمل طور پر نارمل، صحت مندانہ اور انسانی جذبہ ہے۔ جب تک اس سے بہتر طور پر نمٹا جائے یہ آپ کے تعلقات اور روزمرہ کے واقعات کو تلخ ہونے سے بچاسکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ نہ صرف دفتری کام کاج اور تعلقات عامہ میں بلکہ تمام تر زندگی کے معاملات میں اس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ غصہ اندرونی و بیرونی ہر دو محرکات کے باعث آسکتا ہے جنہیں Triggers کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ آسانی سے غصہ آجاتا ہے۔ بقول ماہرین نفسیات لوگوں میں ذہنی انتشار کیلئے قوت برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے۔
غصہ ہر شخص کو آتا ہے۔ تھوڑی دیر ناراضگی کے احساس پر یا شدید اشتعال کی حالت میں ہمارے دل کی دھڑکنیں ہم کو اتنا ہیجان میں مبتلا کردیتی ہیں کہ ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ابھی بھک سے اُڑ جائیں گے۔ تاہم ہم سبھی اپنی اس حالت کو تسلیم نہیں کرتے۔ غصہ کا احساس ایک فطری حتیٰ کہ انسان کیلئے ایک مثبت جذبہ ہے۔ غصے کا احساس انسان کو عمل پر اکساتا ہے ایسے عمل پر جو لڑ کر یا راہ فرار اختیار کرکے اپنا بچاؤ کرنے کاعمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی مدافعت نہیں کرسکتا یا فرار کی راہ اختیار نہیں کرسکتا تو اسے اپنے غصے کےاظہار کیلئے کوئی دوسرا طریقہ اپنانےکی ضرورت ہے۔
یہ لازم ہے کہ منتخب شدہ اظہار کا طریقہ مناسب ہو۔ تاہم اب تک اکثر لوگوں نے غصے کے مناسب اظہارکا طریقہ نہیں سیکھا ہے۔ بہتر طور پر غصے کا اظہار کیا جائے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ یہ آپ کے تعلقات کو تقویت بھی دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو مثبت کہا جاسکتا ہے۔ جس غصے کوظاہر نہیں کیا جاتا اسے دبا ہوا یا پوشیدہ غصہ کہتے ہیں جس کے کئی بُرے نتائج نکل سکتے ہیں۔
جب ہم مشتعل ہوتے ہیں تو ہمیشہ تعلقات اور نتائج کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ چھوٹی موٹی باتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں اور بڑی پریشان کن باتوں کو اپنے ظاہری مشتعل کردار اور دوسرے چھوٹے مسائل تلے دبالیتے ہیں۔ ہم سخت جذباتی ہوجاتے ہیں اور جس طرح ہم غصہ کی حالت میں اپنے بچوں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں ہمارا رویہ بالکل ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر ریڈ فورڈ ولیم شعبہ تحقیق برائے کرداری ادویات کے ڈائریکٹر کہتے ہیں غصہ دوسری چیزوں سے قطع نظر آپ کے جسم پر بھی برے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ یہ آپ کوممکنہ مرض کا نشانہ بناسکتا ہے۔ مثلاً آپ کسی خاص جراثیم وائرس یا کسی خاندانی کینسر اور دل کی بیماری کا باآسانی ہدف بن سکتے ہیں۔ جن کا آپ کو محض خطرہ ہی ہو۔
تناؤ (اسٹریس) کے ماہرین کہتے ہیں کہ غصے کے اسباب کے تین عوامل ہوتے ہیں یعنی خوف‘ بے یقینی اورشک۔ یہ ایک عام رائے ہے کہ یہ تین چیزیں ہی اکثر لوگوں میں تناؤ دباؤ کی بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ باہم مل کر ایک نمایاں بے اختیاری پیدا کردیتی ہیں جو غصے کا باعث بن جاتی ہے۔ جو لوگ جلد غصے کا شکار ہوجاتے ہیں ان میں کاملیت پسند یعنی ہر چیز کو مکمل دیکھنے کے شائق، ہر وقت کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی جستجو کرنے والے اور خوشامدی لوگ شامل ہیں۔
دوسرے لوگ اس لیے غصہ ہوجاتے ہیں کہ وہ چھوٹی پریشانیوں (مثلاً ٹریفک جام) اور بڑے صدمات (جیسے خاندان میں کسی کی موت) میں فرق نہیں کرپاتے۔ وہ ہر طرح کی صورتحال کو یکساں لیتے ہیں۔ مشتعل افراد چھوٹی موٹی پریشانیوں (مثلاً بازار کا رش‘ ٹریفک جام، گندے برتنوں کا جمع ہونا) پر اس طرح غصہ ہوتے ہیں جیسے وہ دراصل ان کی جان و مال کیلئے خطرہ ہوں۔
ایک تناؤ (اسٹریس) کے ماہر کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے غصے کے اسباب جان لیں تو آپ ایک طرح سے آگ کو جلنے سے قبل بجھا سکتےہیں۔ اسٹریس ہر روز ہماری زندگی کو کم کردیتا ہے۔ اپنے تناؤکو شناخت کیجئے اور اس سے بہتر طور پر نمٹئے۔ زیادہ تھکن یا زیادہ بھوک اپنے اوپر طاری مت کریں۔ اپنی ذاتی رہائش کی حفاظت کریں اور ضرورت پڑے تو ہر روز تنہا وقت گزارنے کی کوشش کریں۔ اس بات سے آگاہ ہوئیے کہ آپ کتنی گنجائش چاہتے ہیں اور ذہنی طور پر اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ غصے کے ان اسباب سے نمٹنے میں ناکامی خود پر کنٹرول نہ رکھنے کا باعث بن جاتا ہے۔
روزنامے اور ٹی وی کی خبریں‘ میاں بیوی کے تنازعات‘ بچوں کے ساتھ بدسلوکی‘ عزیز شخصیات کے وحشیانہ قتل‘ خودکشیاں‘ معالجین کامریضوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ‘ ماؤں کا اپنے ہی بچوں کو قتل کرنا جیسی خبروں کی ایک بوچھاڑ رکھتے ہیں۔ اشتعال میں پہنچائے ہوئے جسمانی اور ذہنی زخموں کی تکلیف کو کسی قسم کی معافیاں اور امن و امان کی یقین دہانیاں مٹا نہیں سکتیں۔ نہ ہی وہ فوت شدگان کو واپس لاسکتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی یہ ہولناک تشریحات تقریباً ہمارے اپنے گھروں میں ہونے والے واقعات ہی کے عکاس ہوتے ہیں۔ تناؤ کے ماہرین کہتے ہیں کہ ازدواجی ناچاقیاں مندرجہ ذیل شخصیت کے حامل لوگوں میں واقع ہوتی ہیں۔
حد درجہ حسد:دوسروں کو قابو/ اپنے کنٹرول میں کرنے کی شدید خواہش۔ اپنے شریک حیات کیلئے احساس ملکیت۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے مرد جو اپنی بیویوںکے ساتھ بہت سخت ہوتے ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ویسے ہی مالک ہیں جیسے اپنی کار یا موبائل فون۔ ایسی شخصیت کا علاج خود آگاہی ہے۔ اس بات کا احساس کریں کہ آپ کا غصہ آپ کی ذمہ داری ہے‘ آپ کا ساتھی کچھ کرتا ہے اور آپ کا ردعمل غصہ ہوتا ہے۔ ملکیت کا ہر خیال ذہن سے نکال دیں۔ کوئی شخص کسی کا مالک نہیں ہوتا۔ غصے کی بنیاد کا جائزہ لیں۔ غصے کی خواہش کی وجہ معلوم کریں اور اس بات کو سمجھئے کہ غصہ کسی عزیز شخص کے کھونے کے خوف سے ہی پیدا کردہ ہے۔کیونکہ غصہ اکثر بے قابو ہونے کے احساس کی وجہ سے آتا ہے۔ لہٰذا تناؤ کو ختم کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ خود کو یاد دلائیے کہ آپ ہمیشہ خود پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اپنے آپ کو یاد دلائیے کہ ایک سو ساٹھ سال بعد بھی ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو آج آپ کو پریشان کررہی ہیں۔ اپنے اشتعال کوشکست دینے کے طریقے: باقاعدہ ہلکی ورزش کریں تاکہ تناؤ پیدا کرنے والے کیمیائی مادوں کی جگہ ایسے دماغی کیمیائی مرکبات پیدا ہوں جو آپ کو ہشاش بشاش رکھتے ہیں۔ اپنے اندر مزاح کی حس پیدا کریں اور اسے ہمہ وقت بیدار رکھیں۔ اپنی خود داری کو برقرار رکھیں اورضبط برداشت اور اپنے اندر انکساری کے آزمودہ اور روایتی اوصاف پیدا کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں